Sunday, November 28, 2010

خشک آنکھوں میں برسات دے رہے ہیں

Contect: redbox0011@gmail.com



خشک آنکھوں میں برسات دے رہے ہیں
میرے مقدرمیں اندھیری رات دے رہے ہیں


گھر پہ میسر نہیں دو وقت کی روٹی بھی
یہ نئی نئی رسومات دے رہے ہیں


حبس دولت کی بڑھتی جا رہی ہے
لوگ رشتوں کو مات دے رہے ہیں


پھول مانگنے والوں کے ہاتھوں میں
سوکھے ہوئے پات دے رہے ہیں


گھر کو آگ لگی ہے او ر یہ لوگ
ہواؤں کو جذبات دے رہے ہیں


عثمان ظلم پہ خاموش رہ کر ہم
ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں
۔

جاگتی آنکھوں میں یوں خواب آتے ہیں۔

Contect: redbox0011@gmail.com




جاگتی آنکھوں میں یوں خواب آتے ہیں۔

جیسے سامنے زندگی کے عذاب آتے ہیں۔



چہرے پہ لگائے ہوئے روایات کا غازہ

بہت سے چہرے اب بے نقاب آتے ہیں۔



پہلے تو خط ہوتے تھے آدھی ملاقات

اب خطوں میں بھی صرف آداب آتے ہیں۔



دم گھٹ کہ مر جاتی ہے جب کوئی خواہش

مری آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب آتے ہیں۔



اے خدا مری منزل کو سلامت رکھنا

مرے رستے میں سوکھے ہوئے گلاب آتے ہیں۔



عثمان " دل وہ درویش ہے کہ نظراٹھاتا ہی نہیں"۔

ورنہ اس کے در پہ تو سو احباب آتے ہیں۔
Contect: redbox0011@gmail.com


عکس دل میں اتر جاتا ہے۔
وقت ہنس کے گزر جاتا ہے۔



اپنے بکھیڑوں سے ہی فرصت نہیں ملتی
کون جاناں کسی کے گھر جاتا ہے۔



محبت کھیل ہی ایسا ہے کہ جاں وفا
کسی کی دستار جاتی ہے کسی کا سر جاتا ہے۔



کوئی کود جاتا ہے آگ کے دریا میں
کوئی کنارے سے ہی دیکھ کہ ڈر جاتا ہے۔



عثمان جب قدم اٹھاؤ تو ذرا سوچ کے چلنا
کئی نسلوں تک اس کا زہر جاتا ہے۔
۔

جذبہ ہو تو بند بنایا جا سکتا ہے۔

Contect: redbox0011@gmail.com


جذبہ ہو تو بند بنایا جا سکتا ہے۔
ڈوبتا ہوا شہر بچایا جا سکتا ہے۔


بہتی ہوئی ندی کے دو کناروں کی طرح
آخر کب تک ساتھہ نبھایا جا سکتا ہے۔


سامنے سے جب کوئی بھی آواز نہ دے
کب تک تنہا شور مچایا جا سکتا ہے۔


طویل مسافت پہ محبت کے راہی کو
ہاتھہ بکڑ کے راہ دکھلایا جا سکتا ہے۔


مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے
گزرے دنوں پہ بس پچھتایا جا سکتا ہے۔


اپنی اپنی اوقات کے مطابق اے اہل ستم
ڈھا لو جتنا ستم ڈھایا جا سکتا ہے۔


عثمان جسکا حق ہے اسےمل ہی جانا ہے
نا حق کب تک خون بہایا جا سکتا ہے۔
۔