جھوٹی تسلیوں کا سہارا نہیں چاہیے۔
کوئی بھی زخم اب دوبارہ نہیں چاہیے۔
جاگ اٹھیں جس سے ماضی کی حسرتیں
ایسا اب کوئی بھی نظارہ نہیں چاہیے۔
اپنا وجود بھی کھو دے لہروں کے سامنے
ہم کو اب ریت کا کنارہ نہیں چاہیے۔
عمر بھر آگ میں جلتا رہے ، چلتا رہے
ہمیں سورج سا ستارہ نہیں چاہیے۔
کوئی تو ہو جو روح کی تسکین بھی کرے
عثمان وفاؤں کے عوض ہم کو خسارہ نہیں چاہیے۔
اے زمانے اک عمر ہم تری زد پہ رہے
اب کوئی بھی ہمیں فیصلہ تمھارا نہیں چاہیے۔
No comments:
Post a Comment